Error:URL rejected: Malformed input to a URL function
/ تاریخِ اسلام / بنو عباس

خلافت ِبنو عباس کے دوسرے خلیفہ ابو جعفر منصور جن کا دور عدل کی وجہ سے مشہور تھا

خلافت ِ عباسیہ تاریخ اسلام کی  عظیم ترین خلافت تھی۔عباسی دور حکومت جو کہ پانچ سو سال کے عرصے تک محیط ہے،اسلامی تاریخ کا سب سے زیادہ  روشن،شاندار عہد ہے۔ اس پورے دور میں صرف اندرونی طور پر تبدیلیاں  پیدا نہیں ہویں ،بلکہ  عالمی سطح پر بھی اس کے اثرات  ہمہ گیر  اور وسعت پزیر تھے۔ اسلامی حکومت کے ان اثرات کو  وسعت عطا کرنے میں خلیفہ"ابو جعفر منصور"کا بڑا ہاتھ ہے۔

ابو جعفر منصورخلافت عباسیہ کے دوسرے خلیفہ تھے،جنہوں نے 22سال سے زیادہ عرصے تک  دنیا کے ایک بڑے  حصے پر حکمرانی کی۔ابو جعفر منصور کا پورا نام ابو جعفر عبد اللہ بن محمد ہے۔ منصور ان کا لقب تھا۔آپ 95ھ/713 عیسویٰ میں پیدا ہوئے تھے۔آپ کی والدہ سلامہ نہایت متقی پرہیزگار خاتون تھیں ۔ان کے والد امام محمد بن علیؒ تابعی تھے۔ منصور نے ابو العباس عبد اللہ کے بعد 136ھ/بمطابق جون 754عیسویٰ میں خلافت کی زمہ داری سنبھالی۔اس وقت ان کی عمر 41 سال تھی۔اس سے پہلے آپ آرمینیا اور عراق کے والی رہ چکے تھے۔

منصور کو علم سے بے حد محبت تھی۔وہ خود بھی فقہ کے عالم تھے۔ابن خلکان کے مطابق  انہوں نے علم کے حصول کے لیے  طویل سفر کیے۔،جہاں کسی محدث کے بارے میں سنتے وہاں پہنچ جاتےاور علم و حدیث سنتے۔

امام مالک ؒ فرماتے ہیں،"کہ منصور نے میرے ساتھ اولین دور کے علما اور بزرگوں  کے بارے میں گفتگو شروع کی تو میں نے  انہیں سب سے زیادہ  علم والا پایا۔منصور نے اپنے بیٹے  مہدی کو امام مالکؒ کے پاس مدینے بھیجا،اور مہدی نے امام مالکؒ سے موطا پڑھی۔

منصور کے عہد سے پہلے رواج تھا کہ علما اپنی یاداشت  کی مدد سے تعلیم دیا کرتے تھے۔لیکن خلیفہ منصور کے دور میں  علم کو کتاب کی صورت میں محفوظ کرنے کا آغاز ہواتو۔

ابن جرریخؒ مکہ میں تھے۔ مکہ میں امام اوزاعیؒ  تعلیم دے رہے تھے۔ بصرہ میں ابن ابی عروبہؒ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔اس طرح پوری اسلامی مملکت علم و ادب کا گہوارہ بن گئ تھی۔ منصور نے  قیصر ِ روم سے بھی کہا کہ اہم علمی کُتب کا عربی میں ترجمہ کر کے بھیجیے تو قیصر روم نے ایسا  ہی کیا  اس طرح علم کا ایک نیا دروازہ کھل گیا۔

ابو جعفر منصور کا قاعدہ یہ تھا کہ دن بھر امورِ مملکت انجام دیتے تھے۔ نماز عصر کے بعد کا وقت اہلخانہ کے ساتھ گزارتے تھے۔ رات کو پہلے سے طے شدہ ملاقاتیں ہو تیں۔عشاء کی نماز کے بعد خطوط  پڑھتےاور رات کے آخری پہر تہجد پڑھتےتھے۔

منصور ذاتی طور پرسادگی پسند انسان تھے۔ایک بار انکی خادمہ نے انہیں پیوند لگا ہوا کرتہ پہنے دیکھ لیا اور بولی۔"خلیفہ اور پیوند لگا کُرتہ؟"

منصور نے جواب میں ایک شعر پڑھا  جسکا مفہوم یہ ہے"کبھی کوئ شخص اس حالت میں عزت وشرف حاصل کر لیتا ہے،جبکہ اس کی چادر پرانی ہوتی ہے۔ اور اس کی قمیص میں پیوند لگا ہوتا ہے۔ پھر بولے۔"اے خادمہ!،اس میں تعجب کی کوئ بات نہیں ہے۔"

مسعودی کہتے ہیں کہ منصور کو جس معاملے میں نفع کی توقع ہوتی تھی۔ اس میں بے دریغ رقم صرف کر دیتے تھے۔آپ نے گھر والوں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ مال کو ضایع نہ کیاجاے۔ بعض افسران نے شاعروں کو بڑے بڑے انعامات دیے، منصور کو جب اطلاع ملی تو انہوں نے افسروں کو بلا کر ان سے سختی سے اس کا سوال کیا اور بعد میں شاعروں کو کچھ رقم دے کر باقی واپس خزانے مین جمع کرا دی۔

ایک بار آپ اپنی قیام گاہ سے جب داخل ہونے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ تین قندیلیں جل رہی ہیں  آپ نے فورً کہا،"کہ کیا ایک قندیل کافی نہ تھی"

حضر موت کے والی(گورنر) اکثر شکار کے لیے جایا کرتے تھے۔ جب منصور کو اطلاع ملی تو سختی سے باز پُرس کی کہ"آپ کو مسلمانوں کی خدمت کے لیے مقررر کیا گیا تھا نہ کہ جانوروں کو تکلیف دینے کے لیے" اور والی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔

اصمعی کہتے ہیں کہ خلیفہ منصور نے ایک شخص کو سزا دینے کے لیے بلایا۔اس شخص نےکہا"کہ بدلہ لینا عدل و انصاف ہے اور معاف کر دیان اس سے بھی بہتر کام ہے۔"یہ سن کر منصور نے اسے معاف کر دیا۔

سوار بن عبد اللہ بصرہ کے جج تھے۔ انہیں ایک دن منصور نے پیغام بھیجا کہ"زمین کے بارے میں گھوڑے ہانکنے والے اور تاجر کا جو مقدمہ آپؒ کی عدالت میں ہے اس میں آپؒ گھوڑے ہانکنے والے کے حق میں فیصلہ دے دیں ۔"وہاں سے جواب آیا کہ  شہادتوں سے ثابت ہے کہ زمین تاجر کی ہے،میں شہادتوں اور ثبوت کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتا۔منصور نے پھر پیغام بھیجا کہ فیصلہ گھوڑے ہانکنے والے کے حق میں دے دیں ، لیکن سوار بن عبد اللہ نے جواب دیا کہ "اللہ کی قسم میں یہ فیصلہ نہیں دے سکتا" منصور نے جب یہ جواب سنا تو کہا،۔"بخدا میں نے زمین  کو عدل و انصاف سے بھر دیا ہے" سب سے پہلے قاضی کا عہدہ بھی منصور نے قائم کیا تھا۔ اس عہدے پر قاضی ابن ابی لیلیٰ مقرر ہوئے انہوں نے 30 سال تک یہ زمہ داری نبھائ۔

132ہجری میں قیصر روم نے ملطیہ پر چڑھائ کر دی اور اس  پر قبضہ کر لیا۔ملطیہ  اسلامی اور رومی سرحد کا ایک اہم مورچہ تھا۔خلیفہ منصور نے انطاکیہ کے گورنر "عباس بن  محمد" کو مقابلے کے لیے بھیجا،جنہوں نے رومیوں کو مار  بھگایا۔136 ھ میں عباس نے ملطیہ کو دوبارہ تعمیر اور آباد کیا۔155ہجری تک قیصر روم سے کشمکش جاری رہی۔بالآخر  قیصر روم نے منصور سے مصالحت کی درخواست کی اور ہر سال ایک بڑی رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا۔

خلیفہ منصور ذی الحجہ کے مہینے میں پیدا ہوئے تھے۔ اسی ماہ میں خلافت کی گدی پر بیٹھے تھےاور اسی ماہ میں ان کا انتقال ہوا تھا۔

آخری عمر میں وہ کافی بیمار رہنے لگے تھے۔ ان کو معدے میں خرابی کی شکایت تھی۔طبیبوں نے بتایا کہ علاج ممکن ہے لیکن جو ادویات استعمال ہوں گی وہ بذات خود بری گرم ہوتی ہیں ۔ ان کا فوری اثر تو ہو گا لیکن بعد میں نقصان دہ ثابت ہوں گی۔اسی زمانے میں ہندستان سے ایک طبیب آئے، انہوں نے بہت سے سفوف تیار کیے منصور نے انہیں کھایا تو کھانا ہضم ہونے لگا  تاہم بعض معالجوں کا کہنا تھا کہ ان ادویات سے خلیفہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

ذی الحجہ158ھ بمطابق اکتوبر 775عیسویٰ میں منصور احرام باندھ کر حج کے ارادے سے نکلے لیکن راستے میں ہی ان کی زندگی کے دن پورے ہو گئے۔ مکہ مکرمہ سے چند میل پہلے بطن  کے مقام پر 7 ذی الحجہ بمطابق8 آکتوبر کو  ان کا انتقال ہو گیا۔آپ کو بابِ معلیٰ کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔

خلیفہ منصور کی ذات  میں خدا ترس اور صا لح سوچ رکھنے والا حکمران نظر آتا ہے۔ انہوں نے جو وصیت اپنے بیٹے ہو کی وہ یہ تھی۔"

"بیٹا!محمدؐکی امت کی حفاظت کرنا،اس کے بدلے اللہ تمہارے کاموں کی حفاظت کرے گا۔ حرام خونریزی سے بچنا کہ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے،حلال کو اپنے اوپر لازم کر لو،کیونکہ اس میں  تمہارے لیے آخرت میں بھی ثواب ہے اور دنیا میں بھی بھلائ ہے،اعتدال سے نہ بڑھنا کہ اس میں ہلاکت ہے۔"

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

جنگِ زاب جس کے بعد بنو اُمیہ کا خاتمہ ہوا اور عباسی خلافت کی شروعات ہوئی۔

یہ25 جنوری کی صبح خلافت اُمیہ کے خلیفہ" مرو ان ثانی" اور تحِریک عباسیہ کے سپہ سالار"بو مسلم"اور عبداللہ بن علی کی افوج کے درمیان "دریاۓ زاب" کے کنارے لڑی  جانے والی ایک تار یخی جنگ تھی۔ خلافت اُمیہ، خلافتِ…

مزید پڑھیں
Abbasid Caliph Harun Al Rashid History In Urdu

عباسی خلافت کے سب سے مشہور ترین خلیفہ"ہارون الرشید" کی زندگی پر ایک تاریخی نظر۔    "ہارون الرشید" نے تیس سال سے زائد مدت تک خلافت کی ذمہ داری انجام دی اور اپنی اچھی سیرت اور حسن انتظام کے ذریعہ…

مزید پڑھیں
عباسیوں اور امویوں کے درمیان دریائے "زاب"کے کنارے لڑی جانے والی تاریخی جنگ۔

حضرت امام حسن  کی شہادت کے بعد  راشدین خلافت کا  30 سالہ سنہری دور  اپنے اختتام کو  پہنچ گیا،اور اُس کے بعد  ملوکیت کا ایسا  سیاہ دور شروع ہوا،جو آج تک جاری ہے۔حضرت امام حسن کی شہادت  کے بعد  خلافت…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں